Orhan

Add To collaction

ابھی موجود تھی

ابھی موجود تھی لیکن ابھی گم ہو گئی ہے
نہ جانے کس جہاں میں زندگی گم ہو گئی ہے

مرے ہم راہ کیوں وہ شخص چلنا چاہتا ہے
سفر کے جوش میں کیا آگہی گم ہو گئی ہے

سبھی خوش ہیں کہ سارے گمشدہ پھر مل گئے ہیں
مجھے غم ہے کہ اب تیری کمی گم ہو گئی ہے

مرے ہونٹوں کو دریا نے کیا سیراب لیکن
حیات افروز دل کی تشنگی گم ہو گئی ہے

میں اس سے مدتوں کے بعد دوبارہ دوبارا ملا ہوں
خوشی تو ہے مگر وارفتگی گم ہو گئی ہے

یہ کن تشنہ لبوں کی فوج گزری ہے ادھر سے
کہیں کچھ کم کہیں پوری ندی گم ہو گئی ہے

ہمیشہ جو مجھے اذن سخن دیتی رہی تھی
ہجوم شور میں وہ خامشی گم ہو گئی ہے

میں اس کی یاد سے بس ایک پل کو گم ہوا تھا
مگر لگتا ہے جیسے اک صدی گم ہو گئی ہے

بہ طور‌ رسم ہی کار جنوں باقی ہے مجھ میں
وگرنہ دشت سے وابستگی گم ہو گئی ہے

سلیمؔ اس میں زیادہ فرق تو اب بھی نہیں ہے
بس اتنا ہے کہ تھوڑی سادگی گم ہو گئی ہے
سلیم فراز

   1
0 Comments